01-May-2022 لیکھنی کی کہانی ۔ آں چست از روز میری قسط 20
آں چست
از روز میری
قسط نمبر20
رات یونہی بیڈ پہ بیٹھتے' کھلی آنکھوں سے کاٹ دی گئی تھی۔ کوئی ایسا لمحہ' کوئی ایسا پل نا گزرا تھا جب احد کا ذہن مشائم کے خیال سے مبرا ہو۔
جب آفتاب کی کرنوں کے ساتھ پرند کے چہچہانے کی آواز اسکے روم میں پہنچی تو اسنے خود کو روم کے فرش پہ اوندھا پایا۔ ساری رات جاگنے کے باعث اسکا بدن تھکن اور درد سے چور تھا۔
"احد بیٹا تم فرش پہ کیوں سو رہے ہو؟؟"۔ راضیہ بیگم جو احد کے روم میں داخل ہوتے ہی اس طرف آئیں تھیں' احد کو فرش پہ لیٹا دیکھ متحیر ہوئیں۔
"ماما میں رات کو سو نہیں سکا بس پتہ نہیں کب آنکھ لگ گئی اور میں یہیں لیٹ گیا"۔ احد آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا تھا۔
"اچھا اٹھو شاباش"۔ بیڈ کی پائینتی پہ بیٹھتے راضیہ بیگم نے کہا۔
احد فرش سے اٹھتا راضیہ بیگم کے برابر بیٹھ گیا پھر خود کو پرسکون کرتے راضیہ بیگم کی گود میں سر رکھ لیا۔
"احد تمھیں ایک بات بتانے آئی تھی"۔ احد جو ملول راضیہ بیگم کی گود میں سر رکھے ہوئے تھا' کے بال سہلاتے راضیہ بیگم نے کہا۔
"کونسی بات ماما؟"۔
"مشائم کو ہوش آ گیا ہے"۔
"وٹ؟؟"۔ احد سرعت سے سیدھا ہوا۔ "آپ سچ بول رہی ہیں؟؟؟"۔ احد کے چہرے پہ خوشی کی دلربا لہر دوڑ گئی تھی۔
"جی میری جان ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی شہریار کی کال آئی ہے تمھاری دعا قبول ہو گئی احد"۔ احد کا چہرہ ہاتھوں کی اوک میں لیتے راضیہ بیگم نے کہا۔
"تھینک یو سو مچ ماما اتنی بڑی خوشخبری سنانے کیلیئے"۔
راضیہ بیگم کے گلے لگتے وقت احد کی آنکھیں رو رہی تھیں جبکہ لب ہنس رہے تھے۔
"میں ابھی مشائم سے ملنے جاتا ہوں"۔ احد عجلت میں بیڈ سے اٹھتے واش روم کی طرف بڑھا جب یکلخت اسکے قدم واش روم کی دہلیز پہ جمے۔
"اگر مشائم کی بھلائی چاہتے ہو تو تمھیں اس سے دور رہنا ہوگا ورنہ اس بار تو وہ بچ گئی آئیندہ تم اسکی صورت دیکھنے کیلیئے بھی ترسو گے"۔ خیال آتے ہی احد کی آنکھیں خوف و ہراس سے ابھریں۔
"کیا ہوا احد بیٹا؟"۔ راضیہ بیگم احد کی اس حرکت پہ متعجب اسکی طرف آئیں۔
"ک ک کچھ نہیں ماما"۔ جبرا مسکان لبوں پہ سجاتے احد اس طرف مڑا۔
"ٹھیک ہے بیٹا تم فریش ہو کر آجاو میں تمھارے لیئے ناشتہ بناتی ہوں"۔ راضیہ بیگم اسے باور کراتے روم سے نکل گئی تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"مشی میری بچی کیسی ہو؟"۔ مشائم کو ہوش میں آنے کے بعد کامن روم میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔ عمارہ بیگم روم میں داخل ہوتے ہی بےقراری میں مشائم کے قریب آ کر کہنے لگیں۔
"ماما میں ٹھیک ہوں"۔ مشائم نے ہولے سے کہا۔
"آنٹی میں میڈیسنز، فروٹس اور جوس لے آیا ہوں اسکے علاوہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیے گا"۔ شہریار ہاتھ میں شاپنگ بیگز پکڑے روم میں داخل ہوا۔
"بہت شکریہ بیٹا"۔ عمارہ بیگم نے خوش کن لہجے میں کہا۔
"کوئی بات نہیں آنٹی' مشائم اب تمھاری طبیعت کیسی ہے؟؟"۔ عمارہ بیگم کے بعد شہریار نے مشائم کو مخاطب کیا۔
"میں ٹھیک ہوں' شہریار بھائی احد کہاں ہے؟؟"۔ آنکھوں میں دید کی آرزو لیئے مشائم نے سوال کیا۔
"مشائم احد گھر ہے"۔
"گھر ہے؟"۔
"ہاں میں گھر جا کر اسے بھیجتا ہوں"۔ بولتے ہی شہریار روم سے نکل گیا تھا۔
"احد کو تو ہوسپٹل میں ہونا چاہیئے تھا لیکن وہ گھر ہے"۔ شہریار کی بات پہ مشائم سوچ میں پڑ گئی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"ماما احد کہاں ہے؟؟"۔ احد کو روم میں تلاش کرنے کے بعد اب شہریار سمعان صاحب اور راضیہ بیگم کے روم میں آیا تھا جہاں راضیہ بیگم وارڈ روب میں کپڑوں کی ترتیب سیٹ کر رہی تھیں۔
"احد ہوسپٹل گیا ہے' کیا وہاں نہیں پہنچا؟؟"۔ راضیہ بیگم وارفتہ وارڈ روب بند کرتیں اس طرف آئیں۔
"نہیں ماما میں ابھی ہوسپٹل سے ہی آ رہا ہوں مشائم بہت بار احد کا پوچھ چکی ہے لیکن احد ہوسپٹل نہیں پہنچا"۔ شہریار نے تفصیلا کہا۔
"پتہ نہیں بیٹا پھر کہاں گیا تم اسے کال کر کے پوچھ لو نا"۔ راضیہ بیگم نے مزید کہا۔
"ویسے مجھے لگا تھا شاید آپکو بتا کر گیا ہو لیکن وہ آپکو بھی بتا کر نہیں گیا چلیں ٹھیک ہے میں اسے کال کر کے پوچھ لیتا ہوں"۔ بولتے ہی شہریار روم سے نکل گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
"مشی زہرہ آپی تمھارے لیئے بہت فکر مند تھیں ہر وقت لب پہ صرف ایک ہی دعا یااللہ میری بہن کو جلدی سے ٹھیک کر دے"۔ زہرہ ،فروا اور جبار بھی شہلا بیگم'مشائم کی خالہ' کے ہمراہ ہوسپٹل پہنچ گئے تھے جب فروا نے مشائم کو مخاطب کرتے اپنے مقابل کھڑی زہرہ کی جانب دیکھا۔
جواب میں مشائم دھیرے سے مسکرا دی۔
"مشائم احد کہاں ہے؟ کیا باہر گیا ہے؟؟"۔ خیال آتے ہی زہرہ نے پوچھا۔
"آپی وہ ۔۔۔۔"۔
"زہرہ بیٹا وہ احد ابھی تک نہیں آیا"۔ عمارہ بیگم نے مشائم کی بات کاٹتے کہا۔
"نہیں آیا؟؟"۔ زہرہ کا منہ حیرت سے کھلا۔ "لیکن احد کیوں نہیں آیا وہ تو مشائم کے بغیر ایک منٹ بھی نہیں رہ سکتا تھا اور وہ اس سے ملنے نہیں آیا"۔
زہرہ کی بات پہ مشائم سر جھکا کے رہ گئی اور اشک اسکی آنکھوں سے بہہ کر دامن پہ گرنے لگے تھے جسے عمارہ بیگم نے فورا سے اوبزرو کیا تھا۔
"مشی"۔ مشائم کے بائیں شانے پہ ہاتھ رکھتے عمارہ بیگم نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
مشائم نے جھٹ پٹ اپنے آنسو صاف کیئے پھر سر اٹھایا۔
"ملنے دو اسے ایک بار اچھے سے خبر لوں گی اسکی"۔ مشائم کو دلاسہ دینے کی غرض سے زہرہ نے چڑ کر کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
احد عرفان سے ملنے اسکے گھر آیا تھا۔ دوڑ بیل بجا کر انتظار کرنے لگا' دروازہ کچھ ہی دیر میں کھل گیا تھا جو عرفان نے بذات خود کھولا تھا۔
"ارے احد تم؟"۔ احد کو دیکھتے عرفان حیرت انگیز حد تک خوش ہوا۔
"سوری یار تجھے شام کے اس پہر ڈسٹرب کر رہا ہوں ایکچوئلی مجھے تم سے ایک ضروری کام ہے"۔ احد نے پس و پیش کہا۔
گزشتہ دو دن سے مستقل رونے کے سبب احد کے گلے کے تار خراب ہو چکے تھے اور آنکھیں لال ہو چکی تھیں۔ احد کی حالت عرفان کو قدرے معیوب لگی۔
"اندر چل کے بات کرتے ہیں' آو"۔ سائیڈ پہ ہوتے عرفان نے احد کو راستہ دیا پھر اسکے ہمقدم گھر کی اندرونی جانب بڑھنے لگا۔
ڈرائنگ روم میں احد کشادہ صوفے پہ بیٹھ گیا تھا۔
"کیا لو گے ٹھنڈا' گرم' چائے' کافی؟؟"۔ بیٹھنے سے پہلے عرفان نے اسے مخاطب کیا۔
"نتھنگ' تھینکس"۔ احد جبرا مسکرا دیا۔
"اچھا چلو بتاو کیا کام ہے؟؟"۔ احد کے بائیں ہاتھ پہ رکھے چھوٹے صوفے پہ بیٹھتے عرفان نے کہا۔
"عرفان مجھے ایبراڈ کنسرٹ کرنا ہے اور اسکے لیئے مجھے تمھاری مدد کی ضرورت ہے"۔ احد نے مدعا بیان کیا۔
"ایبراڈ کنسرٹ کرنا ہے وہ بھی اچانک؟ احد تم جانتے ہو اسکے لیئے وقت درکار ہے یوں اچانک یہ سب مینیج کرنا مشکل ہوگا"۔ عرفان نے وضاحت کی۔
میں جانتا ہوں' عرفان دیکھ یار میں تیرے پاس بڑی امید لے کر آیا ہوں میرے پاس اسکے علاوہ کوئی حل نہیں ہے نا ہی کوئی چارہ"۔ احد نے مرجھائے ہوئے لہجے سے کہا۔
"ٹھیک ہے احد میں کچھ کرتا ہوں تم فکر نا کرو"۔ احد کے چہرے کے تاثرات بھانپتے عرفان نے ہامی بھری۔
تھینک یو سو مچ یار"۔ احد کو آس کی کرن نظر آئی تھی۔
"لیکن ایک پریشانی ضرور ہوگی"۔ عرفان نے آزمودہ کاری سے کہا۔
"کونسی؟"۔ احد ششدر رہ گیا۔
"تمھاری یہ حالت' تمھیں اپنی حالت میں بدلاو لانا ہے ورنہ ایسی حالت میں کنسرٹ نہیں عاشقی تھری ہی بن سکتی ہے"۔ بولتے ہی عرفان نے قہقہ لگایا۔
"نہیں نہیں اسکی نوبت نہیں آئے گی"۔ احد بھی ہنس دیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رات کے بارہ بج رہے تھے گرچہ مشائم ہوش میں آ گئی تھی مگر اسکا دل یونہی اذیت کی پکڑ میں دھڑکنا بھول سا گیا تھا۔ سینے کی دیواروں سے سر پٹختے وہ باہر آنے کو بے چین تھا۔ آنکھیں رو رو کر نڈھال ہو گئیں تھیں' لیمپ کی مدھم روشنی میں اسکا آنسووں سے تر چہرہ قدرے ڈراونا معلوم ہو رہا تھا۔ آنکھ سے گرتے اشکوں نے رخسار سے بہتے مشائم کے تکیے کا رخ کیا تھا جنہیں اب اسنے صاف کرنے کی بجائے اپنے حال پہ چھوڑ دیا تھا۔
"کیسا پیار ہے تمھارا؟؟ کیا واقعی تمھاری کوئی مجبوری ہے یا تمھارا دل مجھ سے اچاٹ ہو گیا ہے۔ میں کچھ سمجھ نہیں پا رہی۔ مجھ سے ملنا تو درکنار تم نے مجھ سے کال پہ بات کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا اس سے تو بہتر تھا کہ میں مر جاتی کم از کم محبت کی اس اذیت سے میں ہرگز دوچار نا ہوتی"۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
مشائم کے گھر کے باہر بائیک کھڑی کرتے حمزہ نے بائیک سے اتر کر ڈور بیل بجائی۔
"آپ کون؟"۔ فروا نے گیٹ کھولا تو حمزہ کر دیکھ کر حیران رہ گئی۔
کالی فلیکسیبل جینز پہ سفید ٹی شرٹ، بال ہمیشہ کی طرح تھوڑا منتشر تھے، ہاتھ میں بکے اور پیروں میں سنیکرز۔
"میں حمزہ مشائم سے ملنے آیا ہوں"۔ حمزہ نے سنجیدگی سے کہا۔
فروا سائیڈ پہ ہوئی تب حمزہ گھر میں داخل ہوا پھر فروا کے تعاقب میں گھر کے اندرونی جانب بڑھنے لگا۔
"اسلام و علیکم"۔ انٹرنس پار کرتے ہی حمزہ کا ٹکڑاو زہرہ سے ہوا جو حمزہ کی انجان صورت دیکھ کر فروا کو اشارہ کرنے لگی۔
"جی میں مشائم کا دوست ہوں اسکی خیریت معلوم کرنے آیا ہوں"۔ حمزہ نے زہرہ کے ذہن میں اٹھتے سوالات کا جواب دیتے کہا۔
"او اچھا' وعیلکم اسلام فروا اسے مشائم کے روم میں ہی لے جاو۔ کیا ہے نا کہ وہ ابھی اس قابل نہیں کہ چل سکے"۔ فروا کے بعد زہرہ نے حمزہ کی طرف دیکھا۔
"مشی دیکھو تم سے کون ملنے آیا ہے؟"۔ فروا کی آواز پہ بیڈ پہ لیٹی مشائم کے دماغ میں پہلا خیال احد کا آیا جس پہ مسکراہٹ نے اسکے لبوں کا احاطہ کیا لیکن حمزہ کو دہلیز پہ کھڑا دیکھ مشائم کی ہنسی پل میں اڑ گئی۔
"ارے حمزہ تم؟"۔ مشائم نے افسردگی سے کہا۔
"ہاں وہ تمھارے ایکسیڈنٹ کا سنا تو تم سے ملنے چلا آیا سوری تمھیں بتایا ہی نہیں"۔ قدم اٹھاتا حمزہ مشائم کے قریب آیا۔
"نہیں کوئی بات نہیں"۔ مشائم بولتے ہی فی الفور سیدھی ہوئی اور دوپٹہ کندھوں پہ برابر کیا۔
"تمھارے لیئے"۔ بولتے ہی اسنے ہاتھ میں پکڑا بکے مشائم کی طرف بڑھایا۔
"تھینکس"۔ مشائم مجبوری کے تحت مسکرا دی۔
"اب تمھاری طبیعت کیسی ہے؟"۔ بیڈ کے قریب رکھی چیئر پہ بیٹھتے حمزہ نے کہا۔
"پہلے سے بہتر ہے"۔ مشائم نے دھیرے سے کہا۔
"اللہ کا شکر ہے کہ تمھیں زیادہ چوٹ نہیں آئی"۔
"جی"۔ بولتے ہی مشائم نے چہرے پہ آئی لٹ کان کے پیچھے اڑسی۔ "احد تمھارے ساتھ نہیں آیا؟؟"۔ مشائم نے ہچکچاتے کہا۔
"احد؟؟ کیا مطلب احد میرے ساتھ کیوں آئے گا؟"۔ مشائم کے سوال پہ حمزہ دنگ رہ گیا۔ "وہ ابھی تک تم سے ملنے نہیں آیا؟؟"۔ حمزہ کو شاک لگا تھا۔
"نہیں"۔ مشائم کے دل کی کیفیت اسکے چہرے پہ آشکار تھی جسے حمزہ بھانپ گیا تھا۔
بغیر کچھ کہے حمزہ فورا سے چیئر سے اٹھا اور روم سے نکل گیا تھا۔
مشائم اسے کیا ہوا؟؟"۔ فروا جو حمزہ کے تعاقب میں کھڑی تھی حمزہ کا رویہ دیکھ کر حیران ہوئی۔
"پتہ نہیں"۔ مشائم نے شانے اچکا دیئے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆